ایک زمانہ تھا کہ عورت ان پڑھ تھی .. بچوں کی کثیر تعداد ساس سسر کے ساتھ ساتھ نندوں اور دیوروں کی کفالت اس کی ذمہ داریوں میں شامل تھا... اوپر سے ایک عجیب الفطرت مرد بطور مجازی خدا اسے برداشت کرنا پڑتا تھا..
مگر اس سب کے باوجود وہ محفوظ تھی. پر سکون تھی اور ڈھلتی عمر کے ساتھ وہ ایک رہنما اور سرپنچ کے عہدے تک پہنچ جاتی تھی بچوں پر حکم فیصلے سنانے کے علاوہ سارا دن گھر داری میں گزارنے والی کو محلے کی عورتوں کے علاوہ کسی سے تعلق نہ ہوتا تھا.
مگر اس سب کے باوجود وہ محفوظ تھی. پر سکون تھی اور ڈھلتی عمر کے ساتھ وہ ایک رہنما اور سرپنچ کے عہدے تک پہنچ جاتی تھی بچوں پر حکم فیصلے سنانے کے علاوہ سارا دن گھر داری میں گزارنے والی کو محلے کی عورتوں کے علاوہ کسی سے تعلق نہ ہوتا تھا.
پھر زمانہ جدید ہوا عورت کا اپنے مقام کا احساس ہوا اور وہ آزاد ہونے لگی... سسرال تو بہت بعید اسے خاوند کی خدمت بھی ایک بوجھ لگا... اور پرائیویسی کے نام پر علیحدہ گھر کے مطالبات ہونے لگے... پھر اس دور میں دو بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار.
عاشق کے کہنے پر اپنے بچوں کو قتل کرنے والی عورت.
شوہر کے مظالم کی شکار عورت.
منظر عام پر آنے لگیں.
پھر زمانے نے مزید ترقی کر لی. اور اسے سے بھی چند قدم آگے جا کر اب عورت مکمل آزاد ہے تعلیم یافتہ ہے.. اور اپنی زندگی جی رہی ہے...
ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جارہا ہے کہ. عورت بنک شاپنگ مال آفس اور کئی ایسی جگہوں پر ملازمت کرتی دکھائی جارہی ہے جہاں اس کی موجودگی ہی سمجھ سے باہر ہے...
خیر عورت کو ترقی کرنی چاہیے ضرور کرنی چاہیے ہم اس کے بلکل خلاف نہیں مگر.......
عاشق کے کہنے پر اپنے بچوں کو قتل کرنے والی عورت.
شوہر کے مظالم کی شکار عورت.
منظر عام پر آنے لگیں.
پھر زمانے نے مزید ترقی کر لی. اور اسے سے بھی چند قدم آگے جا کر اب عورت مکمل آزاد ہے تعلیم یافتہ ہے.. اور اپنی زندگی جی رہی ہے...
ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جارہا ہے کہ. عورت بنک شاپنگ مال آفس اور کئی ایسی جگہوں پر ملازمت کرتی دکھائی جارہی ہے جہاں اس کی موجودگی ہی سمجھ سے باہر ہے...
خیر عورت کو ترقی کرنی چاہیے ضرور کرنی چاہیے ہم اس کے بلکل خلاف نہیں مگر.......
عورت کی ایسی ترقی کا سب سے بڑا نقصان مرد کی تنزلی کی صورت میں ہو رہا ہے...
جہاں کہیں ملازمتیں کھلتی ہیں. وہاں مرد کے پاس دکھانے کو صرف اپنی تعلیمی دستاویزات ہوتی ہیں جبکہ عورت کے پاس.. اور بہت کچھ
اور وہ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے..
نتیجہ... مردوں کی اکثریت بے روزگار ہو رہی ہے...
جہاں کہیں ملازمتیں کھلتی ہیں. وہاں مرد کے پاس دکھانے کو صرف اپنی تعلیمی دستاویزات ہوتی ہیں جبکہ عورت کے پاس.. اور بہت کچھ
اور وہ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے..
نتیجہ... مردوں کی اکثریت بے روزگار ہو رہی ہے...
دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عورت جتنی زیادہ تعلیم یافتہ ہوتی جا رہی ہے اس کے رشتے کا مقابل مرد تلاش کرنا اتنا مشکل ہوتا جا رہا ہے...
کیونکہ مردوں کی اکثریت حد ماسٹر ڈگری وہ بھی فارمل ایجوکیشن کے ساتھ کرنے کے بعد ملازمت ڈھونڈنے میں مگن ہو جاتی ہے...
کیونکہ مردوں کی اکثریت حد ماسٹر ڈگری وہ بھی فارمل ایجوکیشن کے ساتھ کرنے کے بعد ملازمت ڈھونڈنے میں مگن ہو جاتی ہے...
اب اس کا اگلا قدم یہ ہو گا کہ عورت ہی ملازمت کر کے گھر کی کفیل ہوا کرے گی.. جبکہ مرد مکمل فارغ یا پھر کسی چھوٹی موٹی ملازمت سے بس زندگی کو دھکا دینے کی ناکام کوشش کرتا ہوا نظر آئے گا...
یہ تو بھلا ہو میڈیا کا جس نے ابھی سے مستقبل کی تیاری شروع کرا دی...
ایک اشتہار میں ایک عورت اپنے دفتر سے وڈیو کال میں گھر بیٹھے بچے کو آ آ آ آں ں ں ں کی آواز نکال کر بچے کو منہ کھولنے کو کہتی ہے اور بچہ منہ کھولتا ہے تو اس بچے کا باپ اس کے منہ میں نوالہ ڈالتا ہے....
ایک اشتہار میں ایک عورت اپنے دفتر سے وڈیو کال میں گھر بیٹھے بچے کو آ آ آ آں ں ں ں کی آواز نکال کر بچے کو منہ کھولنے کو کہتی ہے اور بچہ منہ کھولتا ہے تو اس بچے کا باپ اس کے منہ میں نوالہ ڈالتا ہے....
ایک اشتہار میں گھر بیٹھی ماں اپنی جوان بیٹی کا انتظار کر رہی ہوتی ہے جو رات کے دس بج کر دس منٹ پر گھر پہچتی ہے اور ماں کو چائے بنا کر دیتی ہے.
ہر دوسرے اشتہار میں عورت بطور ملازم دکھائی جانے لگی ہے...
جس کا بنیادی مقصد صرف یہی ہے کہ ملازمت کرنا اور گھر چلانا عورت کا کام ہے.. مرد شاید صرف بچے پیدا کرنے کے لیے رہ جائیں...
جس کا بنیادی مقصد صرف یہی ہے کہ ملازمت کرنا اور گھر چلانا عورت کا کام ہے.. مرد شاید صرف بچے پیدا کرنے کے لیے رہ جائیں...
عورت کی اس طرح کی آزادی ہمارے خاندانی نظام کے لیے بڑی خطرناک ہے.
بچے کے گرنے پر ماں کا میں صدقے کہہ کر لپکنا..
بچے کے ہر آہٹ پر بیچین ہو جانے والی ماں.
بڑھتی عمر کے بچوں کے لیے فکرمند ماں..
وہ سب کی پسند ناپسند کا خیال کرکے ہانڈی پکانے والی ماں.
قصے کہانیاں اور لوری سنا کر سلانے والی ماں...
غلط کاموں پر ڈانٹنے اور چپلیں پھینک کر ڈرانے والی ماں.
اپنی اولاد کی پرورش میں گم صم رہنے والی اور اپنی ہی اولاد میں کیڑے نکالنے اور نکتہ چینیاں کر کے دل ہی دل میں خوش ہونے والی ماں .....
اب اگلی نسل کو شاید نصیب ہی نہ ہو...
بچے کے گرنے پر ماں کا میں صدقے کہہ کر لپکنا..
بچے کے ہر آہٹ پر بیچین ہو جانے والی ماں.
بڑھتی عمر کے بچوں کے لیے فکرمند ماں..
وہ سب کی پسند ناپسند کا خیال کرکے ہانڈی پکانے والی ماں.
قصے کہانیاں اور لوری سنا کر سلانے والی ماں...
غلط کاموں پر ڈانٹنے اور چپلیں پھینک کر ڈرانے والی ماں.
اپنی اولاد کی پرورش میں گم صم رہنے والی اور اپنی ہی اولاد میں کیڑے نکالنے اور نکتہ چینیاں کر کے دل ہی دل میں خوش ہونے والی ماں .....
اب اگلی نسل کو شاید نصیب ہی نہ ہو...
کیونکہ سارا دن کی تھکی ہاری عورت رات کو کیا کیا کرے گی.
بچے سنبھالے گی گھر سنبھالے گی. شوہر سنبھالے گی. یا رات کو آرام کرے گی تاکی صبح تازہ دم ہو کے ملازمت کی ذمہ داری سنبھال سکے....
بچے سنبھالے گی گھر سنبھالے گی. شوہر سنبھالے گی. یا رات کو آرام کرے گی تاکی صبح تازہ دم ہو کے ملازمت کی ذمہ داری سنبھال سکے....
ہسپتال سکول پولیس جیسی ضروری جگہوں پر تو عورت کا وجود نعمت سے کم نہی مگر بلدیہ جیسے محکمے پرائیویٹ اداروں کے استقبالیہ شاپنگ مالز میں جینٹس پراڈکٹس شاپس
اور اس جیسی لاتعداد جگہوں پر عورت کی موجودگی ہمارے مشرقی نظام کے لیے ایٹم بم ہے.. اور ہمارے اخلاقی نظام کا دیوالیہ نکالنے کے لیے کافی ہے... میری تحریر کئی لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہے مگر میں نے حقیقت لکھنے کی کوشش کی ہے... کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے. امید ہے کہیں بھی ضرب لگ گئی تو میری تحریر رائیگاں نہیں جائے گی۔
اور اس جیسی لاتعداد جگہوں پر عورت کی موجودگی ہمارے مشرقی نظام کے لیے ایٹم بم ہے.. اور ہمارے اخلاقی نظام کا دیوالیہ نکالنے کے لیے کافی ہے... میری تحریر کئی لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہے مگر میں نے حقیقت لکھنے کی کوشش کی ہے... کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے. امید ہے کہیں بھی ضرب لگ گئی تو میری تحریر رائیگاں نہیں جائے گی۔
Comments
Post a Comment