جب روح نکلتی ہے توانسان کامنہ کھل جاتاہے ہونٹ کسی بھی قیمت پرآپس میں چپکے ہوہے رہ نہیں سکتے روح پیر کو کھینچتی ہوئی اوپرکی طرف آتی ہے جب پھیپھڑوں اور دل تک روح کھینچ لی جاتی ہے اور انسان سانس ایک ہی طرف یعنی باہر ہی چلنے لگتی ہے یہ وہ وقت ہوتا ہےجب چند لمحوں میں انسان شیطان اورفرشتوں کو دنیا میں اپنے سامنے دیکھتا ہے
ایک طرف ابلیس اس کےکان میں کچھ مشورے دیتا ہے تو دوسری طرف اسکی زبان اسکے عمل کےمطابق کچھ الفاظ ادا کرنا چاہتی ہے اگر انسان نیک ہو تو اسکا دماغ اسکی زبان کو کلمہ شہادت کی ہدایت دیتا ہے
اگرانسان کافر ہو بد دین مشرک یا دنیا پرست ہوتا ہے تو اسکا دماغ کنفیوژن اورایک عجیب ہیبت کا شکار ہو کر شیطان کے مشورے کی پیروی کرتا ہے اور بہت ہی مشکل سے کچھ الفاظ زبان سے ادا کرنیکی بھرپور کوشش کرتا ہے
اگرانسان کافر ہو بد دین مشرک یا دنیا پرست ہوتا ہے تو اسکا دماغ کنفیوژن اورایک عجیب ہیبت کا شکار ہو کر شیطان کے مشورے کی پیروی کرتا ہے اور بہت ہی مشکل سے کچھ الفاظ زبان سے ادا کرنیکی بھرپور کوشش کرتا ہے
یہ سب اتنی تیزی ہوتا ہے کہ دماغ کو دنیا کی فضول باتوں کوسوچنے کاموقع ہی نہیں ملتاانسان کی روح نکلتے ہوئے ایک زبردست تکلیف زہن محسوس کرتا ہے لیکن تڑپ نہیں پاتا کیونکہ دماغ کو چھوڑ کر باقی جسم کی روح اسکے حلق میں اکٹھی ہوجاتی ہے
اور جسم ایک گوشت کے بےجان لوتھڑے کی طرح پڑا ہوا ہوتا ہے
جس میں کوئی حرکت کی گنجاہش نہیں رھتی
اور جسم ایک گوشت کے بےجان لوتھڑے کی طرح پڑا ہوا ہوتا ہے
جس میں کوئی حرکت کی گنجاہش نہیں رھتی
آخر میں دماغ کی روح بھی کھینچ لی جاتی ہے آنکھیں روح کو لے جاتے ہوے دیکھتی ہیں اسلیے کہ آنکھوں کی پتلیاں اوپرچڑھ جاتی ہیں یاجس سمت فرشتہ روح قبض کر کے جاتا ہے اس سمت کی طرف ہوتی ہیں
اسکے بعد انسان کی زندگی کا سفر شروع ہوتا ہےجس میں روح تکلیفوں کے تہہ خانوں سے لے کر آرام کے محلات کی آہٹ محسوس کرنےلگتی ہےجیساکہ اس سے وعدہ کیا گیا ہے
جو دنیا سے گیا واپس کبھی لوٹا نہیں
صرف اس لیے کیونکہ اسکی روح عالم اے برزخ کا انتظار کر رھی ہوتی ہےجس میں اسکا ٹھکانا دے دیا جاے گا
اس دنیا میں محسوس ہونے والی طویل مدت ان روحوں کے لیے چند سیکنڈز سےزیادہ نہیں ہوگی یہاں تک کہ اگر کوئی آج سے کروڑوں سال پہلے ہی کیوں نہ مر چکا ہو۔۔
مومن کی روح اس طرح کھینچ لی جاتی ہے جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے
گناہ گار کی روح خاردار درخت پر پڑے سوتی کپڑے کی طرح کھینچی جاتی ہے
اسکے بعد انسان کی زندگی کا سفر شروع ہوتا ہےجس میں روح تکلیفوں کے تہہ خانوں سے لے کر آرام کے محلات کی آہٹ محسوس کرنےلگتی ہےجیساکہ اس سے وعدہ کیا گیا ہے
جو دنیا سے گیا واپس کبھی لوٹا نہیں
صرف اس لیے کیونکہ اسکی روح عالم اے برزخ کا انتظار کر رھی ہوتی ہےجس میں اسکا ٹھکانا دے دیا جاے گا
اس دنیا میں محسوس ہونے والی طویل مدت ان روحوں کے لیے چند سیکنڈز سےزیادہ نہیں ہوگی یہاں تک کہ اگر کوئی آج سے کروڑوں سال پہلے ہی کیوں نہ مر چکا ہو۔۔
مومن کی روح اس طرح کھینچ لی جاتی ہے جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے
گناہ گار کی روح خاردار درخت پر پڑے سوتی کپڑے کی طرح کھینچی جاتی ہے
اللہ سبحانه وتعالی ھم سب کو موت کے وقت کلمہ نصیب فرما کر آسانی کا معاملہ فرمائے😢😢😢😢
آمین یارب العالمین...
Comments
Post a Comment