ہم شاید اس دنیا کے وہ آخری لوگ ہیں.... جنہوں نے دیئے
کی روشنی میں کتابیں پڑھی
بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا...... کھیتوں و کھلیانوں کی رونق دیکھی..... جنہوں نے مٹی کے گھڑوں کا پانی پیا
ہم ہی وہ آخری لوگ ہیں.....
جو سر پہ سرسوں کا تیل انڈھیل کر اور آنکھوں میں سرمہ لگا کر شادی بیاہ میں جاتے تھے....
ہمی وہ لوگ ہیں جو یسو پنجو، گلی ڈنڈا اور لکن میٹی کھیلا کرتے تھے اور گلے میں مفلر لٹکا کے خود کو باؤ سمجھتے تھے.....
ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے شبنم اور ندیم کی ناکام محبت پہ آنسو بہائے اور انکل سرگم کو دیکھ کر خوش ہوئے....
ہم ہی وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے تختی لکھنے کے لیئے سیاہی گاڑھی کی..... جنہوں نے سکول کی گھنٹی بجانے کو ہمیشہ اپنے لیئے اعزاز سمجھا......
ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی....
کبھی وہ بھی زمانے تھے دوستو......!
جب سب چھت پہ سوتے تھے...... اینٹوں پہ پانی کا چھڑکاؤ ہوتا تھا...... پاس ہی اک اکلوتا سٹینڈ والا پنکھا پڑا ہوتا تھا....... اور گھر میں سب کی ضد ہوتی تھی کہ اسکی چارپائی سب سے آگے ڈالی جائے..... لیکن......
ماں پیاری ماں......یہ سب دیکھ کر یہی اصرار کرتی کہ مجھے پنکھے کی ہوا راس نہیں آتی، میری چارپائی سب سے پیچھے ڈالو
سورج کے ساتھ ہی سب کی آنکھ کھلتی.... اور اگر رات کو کسی وقت بارش آ جاتی تو سبھی اپنے اپنے بستر اٹھاتے اور نیچے چلے جاتے....
وہ چھت پہ سونے کے سب دور ہی بیت گئے....
دوستو، لوگ بھی روٹھ گئے اور رشتے بھی چھوٹ گئے...
کیا ہی خوبصورت زمانہ تھا..... خالص رشتوں کا دور تھا....
لوگ کم پڑھے لکھے اور مخلص ہوتے تھے.....
اب زمانہ پڑھ لکھ کر ترقی تو کر گیا مگر مفادات اور ترقی میں کھو گیا....سوچتا ہوں پہلے لوگ ان پڑھ تھے مگر جاہل نہ تھے، آج لوگ پڑھے لکھے ہیں مگر................
کی روشنی میں کتابیں پڑھی
بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا...... کھیتوں و کھلیانوں کی رونق دیکھی..... جنہوں نے مٹی کے گھڑوں کا پانی پیا
ہم ہی وہ آخری لوگ ہیں.....
جو سر پہ سرسوں کا تیل انڈھیل کر اور آنکھوں میں سرمہ لگا کر شادی بیاہ میں جاتے تھے....
ہمی وہ لوگ ہیں جو یسو پنجو، گلی ڈنڈا اور لکن میٹی کھیلا کرتے تھے اور گلے میں مفلر لٹکا کے خود کو باؤ سمجھتے تھے.....
ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے شبنم اور ندیم کی ناکام محبت پہ آنسو بہائے اور انکل سرگم کو دیکھ کر خوش ہوئے....
ہم ہی وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے تختی لکھنے کے لیئے سیاہی گاڑھی کی..... جنہوں نے سکول کی گھنٹی بجانے کو ہمیشہ اپنے لیئے اعزاز سمجھا......
ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی....
کبھی وہ بھی زمانے تھے دوستو......!
جب سب چھت پہ سوتے تھے...... اینٹوں پہ پانی کا چھڑکاؤ ہوتا تھا...... پاس ہی اک اکلوتا سٹینڈ والا پنکھا پڑا ہوتا تھا....... اور گھر میں سب کی ضد ہوتی تھی کہ اسکی چارپائی سب سے آگے ڈالی جائے..... لیکن......
ماں پیاری ماں......یہ سب دیکھ کر یہی اصرار کرتی کہ مجھے پنکھے کی ہوا راس نہیں آتی، میری چارپائی سب سے پیچھے ڈالو
سورج کے ساتھ ہی سب کی آنکھ کھلتی.... اور اگر رات کو کسی وقت بارش آ جاتی تو سبھی اپنے اپنے بستر اٹھاتے اور نیچے چلے جاتے....
وہ چھت پہ سونے کے سب دور ہی بیت گئے....
دوستو، لوگ بھی روٹھ گئے اور رشتے بھی چھوٹ گئے...
کیا ہی خوبصورت زمانہ تھا..... خالص رشتوں کا دور تھا....
لوگ کم پڑھے لکھے اور مخلص ہوتے تھے.....
اب زمانہ پڑھ لکھ کر ترقی تو کر گیا مگر مفادات اور ترقی میں کھو گیا....سوچتا ہوں پہلے لوگ ان پڑھ تھے مگر جاہل نہ تھے، آج لوگ پڑھے لکھے ہیں مگر................
Comments
Post a Comment