☆☆☆ماں کے آٹھ جھوٹ☆☆☆
میں اکلوتا بیٹا تھا اور غربت بہت تھی،
اتنا کھانا نہیں ہوتا تھا جو ہم سب کو کافی ہو جائے،
ایک دن ہمارے گھر کہیں سے چاول آئے،
میں بڑے شوق سے کھانے لگا اور وہ کھِلانے لگی
میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی پلیٹ کے چاول بھی میری تھالی میں ڈال دئیے،
"بیٹا! یہ چاول تم کھا لو
1. مجھے تو بھوک ہی نہیں ہے
"یہ اس کا پہلا جھوٹ تھا،اور جب میں قدرے بڑا ہوا تو ایک دن مچھلی پکڑنے گیا،اس چھوٹی سی نہر سے جو ہمارے قصبے سے گذرتی تھی،یوں ہوا کہ دومچھلیاں میرے ہاتھ لگیں،بھاگا بھاگا گھر آیا اور جب کھانا تیار ہوگیا،دونوں مچھلیاں سامنے تھیں اور میں شوق سے کھا رہا تھادیکھا کہ ماں صرف کانٹوں کو چوس رہی تھی،میں نے جب یہ دیکھ کر کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تو کہنے لگی،
2. "تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ مجھے مچھلی کا گوشت پسند نہں تم تو کھاؤ"۔اور یہ اس کا دوسرا جھوٹ تھا۔
اور پھر میرا باپ مرگیا اور وہ بیوہ ہو گئی،اور ہم دونوں گھر میں اکیلے رہ گئے،کچھ دن میرا چچا جو بہت اچھا آدمی تھا،ہمیں کھانا اور ضروریاتِ زندگی لاکر دیتا رہا،ہمارے ہمسائے اسے آتے جاتے غور سے دیکھنے لگے،ایک دن انہوں نے ماں سے کہا؛
"زندگی ہمیشہ اس طور پر گذاری نہیں جا سکتی،بہتر ہے کہ تم اس آدمی سے شادی کر لو"۔
لیکن میری ماں نے چچا کو ہی آنے جانے سے منع کر دیا،
3. "مجھے کسی ساتھی کی اور کسی کی محبت کی کوئی ضرورت نہیں ہے"۔یہ اس کا تیسرا جھوٹ تھا۔
اور جب مں کچھ اور بڑا ہوا اور بڑے مدرسے میں جانے لگا،تو میری ماں گھر میں ہر وقت کپڑے سِینے لگی،اور یہ کپڑے وہ گھر گھر جاکر بیچتی تھی سردیوں کی ایک رات تھی اور ماں ابھی تک گھر واپس نہیں آئی تھی،میں تنگ آ کر اسے ڈھونڈنے باہر نکل پڑا،میں نے اسے کپڑوں کا ایک گٹھڑ اٹھائے دیکھا،گلیّوں میں گھر گھر دروازےکھٹکھٹا رہی تھی،
میں نے کہا؛ "ماں چلو اب گھر چلو، باقی کام کل کر لینا"۔کہنے لگی؛ 4. "تم تو گھر جاؤ،دیکھو کتنی سردی ہے اور بارش بھی ہو رہی ہے،میں یہ دو جوڑے بیچ کر ہی آؤں گی،اور فکر نہ کرو میں بالکل ٹھیک ہوں اور تھکاوٹ بھی نہیں ہے"۔یہ اس کا چوتھا جھوٹ تھا۔
اور پھر میرا مدرسے میں آخری دن بھی آ گیا،آخری امتحانات تھے،ماں میرے ساتھ مدرسے گئی،میں اندر کمرۂ امتحان میں تھا اور وہ باہر دھوپ میں کھڑی تھی۔بہت دیر بعد میں باہر نکلا، میں بہت خوش تھا۔ماں نے وہیں سے ایک مشروب کی بوتل خریدی اور میں غٹا غٹ پی گیا۔میں نے شکرگذار نظروں سے اسے دیکھا۔اس کے ماتھے پر پسینے کی دھاریں چل رہی تھیں،میں نے بوتل اس کی طرف بڑھا دی،"پیو ناں ماں"۔
لیکن اس نے کہا؛
5. "تم پیو، مجھے تو بالکل پیاس نہیں ہے"یہ اس کا پانچواں جھوٹ تھا۔
اور جب میں یونیورسٹی سے فارغ ہوگیا تو ایک نوکری مل گئی،میں نے سوچا کہ اب یہ مناسب وقت ہے کہ ماں کو کچھ آرام دیا جائے،اب اس کی صحت پہلے جیسی نہیں تھی،اسی لئے وہ گھر گھر پِھر کر کپڑے نہیں بیچتی تھی،بلکہ بازار میں ہی زمین پر درّی بچھا کر کچھ سبزیاں وغیرہ فروخت کر آتی تھی۔جب میں نے اپنی تنخواہ میں سے کچھ حصہ اسے دینا چاہا،تو اس نے نرمی سے مجھے منع کردیا۔
"بیٹا! ابھی تمہاری تنخواہ تھوڑی ہے،اسے اپنے پاس ہی رکھو جمع کرو،
6. میرا تو گذارہ چل ہی رہا ہے،اتنا کما لیتی ہوں جو مجھے کافی ہوجائے"۔اور یہ اس کا چھٹا جھوٹ تھا۔
اور جب میں کام کے ساتھ ساتھ مزید پڑھنے لگا اور مزید ڈگریاں لینے لگا،تو میری ترقی بھی ہوگئی،میں جس جرمن کمپنی میں تھا، انہوں نے مجھے اپنےہیڈ آفس جرمنی میں بلا لیا،اور میری ایک نئی زندگی کی ابتداء ہوئی،میں نے ماں کو فون کیا اور اسے وہاں میرے پاس آنے کو کہا،لیکن اسے پسند نہ آیا کہ مجھ پر بوجھ بنے،کہنے لگی کہ؛ "تمہیں تو پتہ ہے کہ
7. میں اس طرزِ زندگی کی عادی نہیں ہوں،میں یہاں پر ہی خوش ہوں۔اور یہ اس کا ساتواں جھوٹ تھا۔اور پھر وہ بہت بوڑھی ہو گئی۔ایک دن مجھے پتہ چلا کہ اس کو جان لیوا سرطان ہوگیا ہے،مجھے اس کے پاس ہونا چاہئے تھا، لیکن ہمارے درمیاں مسافتیں حائل تھیں،پھر جب اسے ہسپتال پہنچا دیا گیا تو مجھ سے رہا نہ گیا،میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس وطن واپس آ گیا،وہ بستر پر تھی ، مجھے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ایک مُسکان آ گئی،
مجھے اسے دیکھ کر ایک دھچکہ سا لگا اور دل جلنے لگا،بہت کمزور بہت بیمار لگ رہی تھی،
یہ وہ نہیں تھی، جس کو میں جانتا تھا،میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے،لیکن ماں نے مجھے ٹھیک سے رونے بھی نہیں دیا،میرِی خاطر پِھر مسکرانے لگی،"نہ رو میرے بیٹے،
8. مجھے بالکل کوئی درد نہیں محسوس ہو رہا"۔اور یہ اس کا آٹھواں جھوٹ تھا۔۔اس کے بعد اس نے آنکھیں موند لیں اس کے بعد آنکھیں کبھی نہ کھولیں
اتنا کھانا نہیں ہوتا تھا جو ہم سب کو کافی ہو جائے،
ایک دن ہمارے گھر کہیں سے چاول آئے،
میں بڑے شوق سے کھانے لگا اور وہ کھِلانے لگی
میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی پلیٹ کے چاول بھی میری تھالی میں ڈال دئیے،
"بیٹا! یہ چاول تم کھا لو
1. مجھے تو بھوک ہی نہیں ہے
"یہ اس کا پہلا جھوٹ تھا،اور جب میں قدرے بڑا ہوا تو ایک دن مچھلی پکڑنے گیا،اس چھوٹی سی نہر سے جو ہمارے قصبے سے گذرتی تھی،یوں ہوا کہ دومچھلیاں میرے ہاتھ لگیں،بھاگا بھاگا گھر آیا اور جب کھانا تیار ہوگیا،دونوں مچھلیاں سامنے تھیں اور میں شوق سے کھا رہا تھادیکھا کہ ماں صرف کانٹوں کو چوس رہی تھی،میں نے جب یہ دیکھ کر کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تو کہنے لگی،
2. "تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ مجھے مچھلی کا گوشت پسند نہں تم تو کھاؤ"۔اور یہ اس کا دوسرا جھوٹ تھا۔
اور پھر میرا باپ مرگیا اور وہ بیوہ ہو گئی،اور ہم دونوں گھر میں اکیلے رہ گئے،کچھ دن میرا چچا جو بہت اچھا آدمی تھا،ہمیں کھانا اور ضروریاتِ زندگی لاکر دیتا رہا،ہمارے ہمسائے اسے آتے جاتے غور سے دیکھنے لگے،ایک دن انہوں نے ماں سے کہا؛
"زندگی ہمیشہ اس طور پر گذاری نہیں جا سکتی،بہتر ہے کہ تم اس آدمی سے شادی کر لو"۔
لیکن میری ماں نے چچا کو ہی آنے جانے سے منع کر دیا،
3. "مجھے کسی ساتھی کی اور کسی کی محبت کی کوئی ضرورت نہیں ہے"۔یہ اس کا تیسرا جھوٹ تھا۔
اور جب مں کچھ اور بڑا ہوا اور بڑے مدرسے میں جانے لگا،تو میری ماں گھر میں ہر وقت کپڑے سِینے لگی،اور یہ کپڑے وہ گھر گھر جاکر بیچتی تھی سردیوں کی ایک رات تھی اور ماں ابھی تک گھر واپس نہیں آئی تھی،میں تنگ آ کر اسے ڈھونڈنے باہر نکل پڑا،میں نے اسے کپڑوں کا ایک گٹھڑ اٹھائے دیکھا،گلیّوں میں گھر گھر دروازےکھٹکھٹا رہی تھی،
میں نے کہا؛ "ماں چلو اب گھر چلو، باقی کام کل کر لینا"۔کہنے لگی؛ 4. "تم تو گھر جاؤ،دیکھو کتنی سردی ہے اور بارش بھی ہو رہی ہے،میں یہ دو جوڑے بیچ کر ہی آؤں گی،اور فکر نہ کرو میں بالکل ٹھیک ہوں اور تھکاوٹ بھی نہیں ہے"۔یہ اس کا چوتھا جھوٹ تھا۔
اور پھر میرا مدرسے میں آخری دن بھی آ گیا،آخری امتحانات تھے،ماں میرے ساتھ مدرسے گئی،میں اندر کمرۂ امتحان میں تھا اور وہ باہر دھوپ میں کھڑی تھی۔بہت دیر بعد میں باہر نکلا، میں بہت خوش تھا۔ماں نے وہیں سے ایک مشروب کی بوتل خریدی اور میں غٹا غٹ پی گیا۔میں نے شکرگذار نظروں سے اسے دیکھا۔اس کے ماتھے پر پسینے کی دھاریں چل رہی تھیں،میں نے بوتل اس کی طرف بڑھا دی،"پیو ناں ماں"۔
لیکن اس نے کہا؛
5. "تم پیو، مجھے تو بالکل پیاس نہیں ہے"یہ اس کا پانچواں جھوٹ تھا۔
اور جب میں یونیورسٹی سے فارغ ہوگیا تو ایک نوکری مل گئی،میں نے سوچا کہ اب یہ مناسب وقت ہے کہ ماں کو کچھ آرام دیا جائے،اب اس کی صحت پہلے جیسی نہیں تھی،اسی لئے وہ گھر گھر پِھر کر کپڑے نہیں بیچتی تھی،بلکہ بازار میں ہی زمین پر درّی بچھا کر کچھ سبزیاں وغیرہ فروخت کر آتی تھی۔جب میں نے اپنی تنخواہ میں سے کچھ حصہ اسے دینا چاہا،تو اس نے نرمی سے مجھے منع کردیا۔
"بیٹا! ابھی تمہاری تنخواہ تھوڑی ہے،اسے اپنے پاس ہی رکھو جمع کرو،
6. میرا تو گذارہ چل ہی رہا ہے،اتنا کما لیتی ہوں جو مجھے کافی ہوجائے"۔اور یہ اس کا چھٹا جھوٹ تھا۔
اور جب میں کام کے ساتھ ساتھ مزید پڑھنے لگا اور مزید ڈگریاں لینے لگا،تو میری ترقی بھی ہوگئی،میں جس جرمن کمپنی میں تھا، انہوں نے مجھے اپنےہیڈ آفس جرمنی میں بلا لیا،اور میری ایک نئی زندگی کی ابتداء ہوئی،میں نے ماں کو فون کیا اور اسے وہاں میرے پاس آنے کو کہا،لیکن اسے پسند نہ آیا کہ مجھ پر بوجھ بنے،کہنے لگی کہ؛ "تمہیں تو پتہ ہے کہ
7. میں اس طرزِ زندگی کی عادی نہیں ہوں،میں یہاں پر ہی خوش ہوں۔اور یہ اس کا ساتواں جھوٹ تھا۔اور پھر وہ بہت بوڑھی ہو گئی۔ایک دن مجھے پتہ چلا کہ اس کو جان لیوا سرطان ہوگیا ہے،مجھے اس کے پاس ہونا چاہئے تھا، لیکن ہمارے درمیاں مسافتیں حائل تھیں،پھر جب اسے ہسپتال پہنچا دیا گیا تو مجھ سے رہا نہ گیا،میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس وطن واپس آ گیا،وہ بستر پر تھی ، مجھے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ایک مُسکان آ گئی،
مجھے اسے دیکھ کر ایک دھچکہ سا لگا اور دل جلنے لگا،بہت کمزور بہت بیمار لگ رہی تھی،
یہ وہ نہیں تھی، جس کو میں جانتا تھا،میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے،لیکن ماں نے مجھے ٹھیک سے رونے بھی نہیں دیا،میرِی خاطر پِھر مسکرانے لگی،"نہ رو میرے بیٹے،
8. مجھے بالکل کوئی درد نہیں محسوس ہو رہا"۔اور یہ اس کا آٹھواں جھوٹ تھا۔۔اس کے بعد اس نے آنکھیں موند لیں اس کے بعد آنکھیں کبھی نہ کھولیں
Comments
Post a Comment